حضرت محبوب سجن سائين مختصر سوانح حیات ولادت باسعادت حضرت خواجہ محمد طاہر بخشی نقشبندی المعروف سجن سائينکی ولادت 21 مارچ 1963 درگاہ رحمت پور شریف (لاڑکانہ) میں ہوئی۔ آپ کے کان میں اذان و تکبیر وقت کے ولی کامل حضرت خواجہ محمد عبدالغفار فضلی نقشبندی المعروف حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے خود دی۔ آپ کا نام محمد طاہر بھی پیر مٹھا نے تجویز کیا۔ حضرت پیر مٹھا کا وصال 12 دسمبر 1964ء کو رحمت پور شریف میں ہوا، اس وقت حضور سجن سائیں کی عمر ایک سال نو مہینے تھی۔ عجیب اتفاق حضرت خواجہ غریب نواز سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مارچ میں ہوئی، حضرت محبوب سجن سائیں مدظلہ العالی کی ولادت بھی مارچ میں ہوئی۔ پہلی ہجرت حضرت خواجہ سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے جنوری 1965ء میں درگاہ رحمت پور شریف سے ہجرت کی۔ تبلیغ دین اور طریقہ عالیہ کی اشاعت کے لیے کچھ وقت دین پور شریف میں رہے۔ یہ وہ خوش نصیب گاؤں تھا جہاں حضور پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ رحمت پور شریف جانے سے پہلے رونق افروز ہوئے تھے۔ اس کے بعد حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہٗ نے اپریل 1965ء میں رادھن اسٹیشن کے قریب ایک نئے گاؤں درگاہ فقیر پور شریف کی بنیاد رکھی۔ اس وقت حضور سجن سائیں کی عمر 2 سال تھی۔ تعلیم و تربیت 1966ء میں حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے دینی مدرسے کا بنیاد رکھا۔ تعلیم کی شروعات دونوں بڑی عمر والے شاگردوں سے کی گئی ایک محمد رمضان لاکھو اور دوسرا مولانا قاری محمد داؤد لاکھو۔ یہ پہلی قربانی حضرت قبلہ نصیرالدین شاہ نے پیش کی۔ مولانا بشیر احمد صاحب نے ابتدا میں استاد کے فرائض سرانجام دیے۔ دنیا نے دیکھا کہ محبوب کے درد فکر، محنت و کوشش رنگ لائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹھ سالوں کی عرصے میں 1973ء میں اسی مدرسے سے 2 کی جگہ 22 علماء کرام فارغ التحصیل ہوئے۔ 11 شوال المکرم 1393ھ بمطابق 1973ء میں درگاہ فقیر پور شریف کے سالانہ عرس میں 22 علماء کرام کی دستار فضلیت ہوئی۔ 1967ء میں حضرت قبلہ سجن سائیں نے اسی مدرسے قرآن شریف پرائمری اور فارسی تعلیم حاصل کی اس وقت آپ کی عمر 4 سال تھی۔ حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ 13 فروری 1969ء میں بحری جہاز (سفینۂ حجاج) کے ذریعے حرمین شریفین کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت حضور سجن سائیں کی عمر 6 سال تھی۔ علم تجوید و قرأت حضرت قبلہ سجن سائیں 1970ء میں 7 سال کی چھوٹی عمر میں سید عبدالخالق شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت میں استاد القرآء حضرت مولانا الحاج حافظ قاری محمد طفیل صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس مدرسہ رکن الاسلام حیدرآباد میں پڑھے۔ الحاج قاری محمد طفیل صاحب امرتسر میں پیدا ہوئے، حرمین شریفین میں مدرسہ فخریہ کے مایۂ ناز قاری صاحبان سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور اسی مدرسے سے قرأت سبعہ کی تکمیل کے بعد مدینہ منورہ پہنچے۔ مسجد نبوی کے شیخ القرآء حسن بن ابراہیم سبوطی مصری سے قرأت عشر کی تکمیل کی، شیخ موصوف کی سند کو اختیار کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کو بھی اسی سند کی اجازت دی۔ پاکستان میں آپ نے تقریبا 61 سال فن قرأت کی خدمت کی۔ بہترین تربیت حضرت قبلہ سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کو ہر وقت اپنے فرزند ارجمند کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی زیادہ فکر رہتی تھی۔ آپ کی دلی تمنا تھی کہ آپ کا فرزند چھوٹی عمر میں ہی دین کے لیے گھر کی سہولتیں چھوڑ کر گرمی، سردی برداشت کرکے اور سفر کے درد و تکالیف برداشت کرکے محنت اور مجاہدہ کے عادی بن جائیں۔ مدرسہ رکن الاسلام کے بانی اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ مولانا مفتی محمود الوری نے ایک دفعہ حضور سجن سائیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے جس نے اس پرفتن دور میں اپنے فضل کرم سے ہمیں ایسے شاگرد عطا فرمائے جو ذاکر، شاکر اور تہجد گذار ہیں۔ یاد رہے کہ مدرسے میں آپ کے ساتھ سات ساتھی ساتھ تھے۔ درگاہ طاہر آباد شریف ٹنڈوالہیار سے 7 میل دور چمبڑ روڈ پر گاؤن خان محمد بوزدار میں حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کی پرانی، پیاری، محبت والی جماعت ہے۔ حضرت قبلہ سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نے 1972ء میں درگاہ طاہر آباد شریف کا بنیاد رکھا۔ اس وقت حضور سجن سائیں مدظلہ العالی کی عمر 9 سال تھی۔ جب بھی حضور سوہنا سائیں تبلیغ کے سلسلے میں درگاہ طاہر آباد پر کچھ دن قیام کرتے تھے تو حضور سجن سائیں آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔ تربیتی پروگرام جولائی 1981ء میں درگاہ طاہر آباد میں روحانی طلبہ جماعت کی طرف سے دو دن کا تربیتی پروگرام رکھا ہوا تھا۔ طلباء اور علماء نے مختلف موضوعات پر مختصر لیکچر دیے۔ آخر میں حضور سجن سائیں نے آداب شیخ کے متعلق اردو زبان میں جامع لیکچر دیا اس تاریخی خطاب کی آڈیو کیسٹ بیدار (مصنف) کے پاس موجود ہے۔ اس وقت حضور سجن سائیں عمر 18 سال تھی۔ مقبول مناجات 1972ء کا واقعہ ہے کہ مولانا فضل احمد چانڈیو صاحب نے مجھے بتایا کہ جب حضرت سوہنا سائیں تبلیغ کے سلسلے میں حاجی محمد یوسف چنہ کے پاس محرابپور پہنچے تو آپ کو اچانک سخت عوارضات کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے آپ کی طبعیت سخت ناساز ہوگئی۔ آپ نے محسوس کیا کہ ہماری زندگی کے باقی چند لمحے بچے ہیں۔ اس وقت سجن سائیں کی عمر 9 سال تھی۔ آپ نے بارگاہ الٰہی میں یہ التجاء کی کہ یا اللہ میرا نور نظر ابھی چھوٹا ہے، مجھے اتنی زندگی عطا کر کہ میں اس کی ظاہری، باطنی تعلیم و تربیت کرسکوں۔ میری یہ تمنا ہے کہ یہ بڑا ہوکر دین اسلام کی خدمت کرے اور دین کا سچا خادم بن کر رہے۔ دعا اور التجا کا یہ اثر ہوا کہ وہ بیماری ختم ہوگئی اور آپ بالکل صحت یاب ہوگئے۔ درگاہ اللہ آباد شریف مرحوم ڈاکٹر عبداللطیف چنہ رحمۃ اللہ علیہ نے جستجو، جدوجہد، محنت اور محبت سے 1973ء میں درگاہ اللہ آباد شریف (کنڈیارو) کا قیام رکھا۔ درگاہ فقیرپور سے خلفاء اور علماء کے تقریباً دس گھر مستقل طور پر منتقل ہوگئے۔ 1974ء میں حضور سوہنا سائیں نے ماہانہ ستائیسویں کا پروگرام منعقد کیا۔ درگاہ پر تقریباً تین سال تک ایک بڑے ہال میں نماز ادا کی جاتی تھی۔ آخر ڈاکٹر عبداللطیف چنہ کی نگرانی میں نئی مسجد شریف پایۂ تکمیل تک پہنچی۔ 1977ء میں حضور سوہنا سائیں کی نگرانی میں تعلیم و تربیت کا دورہ شروع ہوا اور اس دن عصر مسجد شریف میں ادا کی گئی۔ دستار فضیلت حضرت قبلہ سجن سائیں درگاہ اللہ آباد کے دینی مدرسے سے عربی تعلیم مکمل کرکے فارغ التحصیل عالم بنے۔ 25 مارچ 1982ء بروز جمعرات سالانہ عرس کے موقعہ پر رات کو دس بجے دستار فضیلت کی تقریب شروع ہوئی۔ یہ مجلس کتنی پروقار شاندار اور باعث برکت ہوگی جس میں دستار بندی کرنے والے سجن سائیں اور دستار باندھنے والے سوہنا سائیں ہیں۔ حضور قبلہ سجن سائیں کے ساتھ جن دوستوں کو دستار بندی کا شرف حاصل ہوا وہ خوش نصیب سترہ تھے۔ علم حدیث اور اعلیٰ تعلیم و تربیت 17 ستمبر 1978 کو حضرت سجن سائیں اعلیٰ تعلیم اور علم حدیث حاصل کرنے کے لیے اپنے چھہ ساتھیوں کے ساتھ استاد محترم مولانا محمد رفیق شاہ صاحب کی رفاقت میں المرکز القادریہ کراچی میں داخل ہوئے۔ آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد منتخب الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی اور اپنی محنت اور ہمت سے ایسے مدرسے میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کی جہاں پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک، افریقہ، گھانا، انڈونیشیا، برما اور افغانستان کے طلباء زیر تعلیم تھے۔ حضرت قبلہ سجن سائیں نے مولانا منتخب الحق قادری صاحب سے علم حدیث کی سند حاصل کی۔ آپ ہر فن میں مہارت رکھتے تھے باالخصوص فن حدیث میں بخاری و مسلم کے گویا حافظ تھے۔ آپ کو تین سندیں ملیں۔ ایک سند کے مطابق آپ اور شاہ ولی اللہ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں۔ جب آپ نے حدیث کی سند حاصل کی اس وقت سجن سائیں کی عمر 15 سال تھی۔ شیخ الحدیث کے تاثرات دستار بندی کے موقعہ پر مذکورہ مدرسے کے مہتمم ڈاکٹر علوی صاحب کہنے لگے کہ افسوس آج ہمارے مدرسے سے بہتر میں بہتر طلباء رخصت ہورہے ہیں اس کے جواب میں حضرت شیخ الحدیث مولانا منتخب الحق صاحب نے فرمایا کہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ مدرسے کی ابتدا ایسے ذہین طلبہ سے ہوئی خصوصاً حضور سجن سائیں سے اتنے متاثر ہوئے کہ فرمایا کہ میرے پاس سیکڑوں طلبہ تعلیم حاصل کرتے رہے لیکن میں اپنے پچاس سالہ تجربے کی بنا پر کہتے ہوئے خوشی اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ اتنے وقت کے بعد ایک طالب العلم ایسا بھی پڑھا ہے جو صحیح معنوں میں صاحب تقویٰ اور بزر گ صفت عالم دین ہے۔ دوران تعلیم مثالی تقویٰ حضور سجن سائیں میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے کمال جوہر رکھے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں جب آپ مرکز قادریہ میں پڑھتے تھے تو مدرسے کی طرف سے طلبہ کو ماہانہ اسکالرشپ ملتی تھی۔ ایک دفعہ مدرسے کی چھٹیاں ہوگئیں تو سب شاگرد اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے طلبہ کو اسکالر شپ بھی مل گئی جو آئندہ ماہ کی تھی۔ درگاہ شریف پر پہنچنے کے بعد جب آپ نے مدرسے جانے کا ارادہ ترک کردیا تو آپ نے ایک دوست کے ہاتھ اسکالرشپ کی رقم واپس کردی اور خط کے ذریعے انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ جب میں اس مدرسے کا شاگرد نہیں رہا تو مجھے یہ پیسے لینے اور رکھنے کا کوئی حق نہیں۔ حضرت سوہنا سائیں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ حضور کی اس نیکی اور تقویٰ پر بے حد خوش ہوئے۔ تعلیم کے دوران تبلیغی ذوق عراق کے رہائشی بزرگ جو المرکز قادریہ میں مدفون ہیں ان کے ایک رشتہ دار جب مدرسے میں آئے تو حضور سجن سائیں نے اسے دستار کی فضیلت اور اہمیت بتاتے ہوئے نصیحت کی۔ یہ تمام گفتگو عربی میں تھی کیونکہ وہ صاحب عربی اور انگریزی کے علاوہ کوئی زبان نہیں سمجھ سکتے تھے۔ یہ صاحب آپ کی عمر، عربی لیاقت اور دین متین کی تبلیغ کا ذوق دیکھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ اس نے کہا مجھے دستار اور ٹوپی دی جائے انشاء اللہ تعالیٰ میں دستار باندھ کر نماز پڑھوں گا۔ مولانا رحمت اللہ قریشی نے بتایا کہ میں نے اسے ٹوپی دی اور مولوی غلام مصطفیٰ دین پوری نے اسے عمامہ دیا۔ اس دن کے بعد اس نے دستار باندھ کر نماز پڑھنا شروع کی۔ حضرت قبلہ محبوب سجن سائیں کے پاس ایک زیادہ ٹوپی تھی جو آپ نے مولانا رحمت اللہ صاحب کو دی جسے آپ نے تبرک سمجھ کر محفوظ کرلیا۔ اس ٹوپی کی زیارت کا شرف بیدار (مصنف) کو بھی حاصل ہے۔ عالم دین کے تاثرات المرکز قادریہ کے ایک استاد مولانا یحییٰ صدیقی صاحب جو معاشیات اور تاریخ اسلام کے پیریڈ پڑھاتے تھے خصوصاً مزارات پر جانے اور پیری مریدی والے سلسلے سے بے تعلق رہتے تھے۔ وہ بھی وقتاً فوقتاً حضور سجن سائیں کو کہتے تھے کہ میں نے زندگی میں معقول پیر صرف ایک دیکھا ہے وہ ہیں آپ کے والد، کیونکہ عام پیر اپنی اولاد کو دین کی تعلیم نہیں دلواتے مگر آپ کے والد نے آپ کو بہت بہترین تعلیم دلوائی ہے۔ ذاتی مشاہدات اور اہم واقعات خواب یا حقیقت موروشہر کے رہائشی محترم ممتاز پیرزادہ صاحب جو واپڈا میں لائین سپریڈنٹ اور میرے شاگرد ہیں اس نے بتایا کہ میں رات کو سورہا تھا کہ مجھے خواب میں حضور سجن سائیں کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا ممتاز صاحب ہماری زمین والی بجلی خراب ہوگئی ہے آپ بناکر دیں تاکہ ٹیوب ویل چل سکے۔ میں صبح اٹھا اور بجلی کا سامان گاڑی میں رکھ کر درگاہ اللہ آباد کی طرف روانہ ہوا۔ میرا پروگرام تھا کہ بھریا سے کنڈیارو جاؤں لیکن نوشہروفیروز پہنچنے پر ارادہ تبدیل ہوگیا اور میں ٹھاروشاہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ ٹھاروشاہ پہنچنے پر میں نے دیکھا کہ میرا دوست فقیر غلام قادر بڑدی جو واپڈا میں ملازم ہے روڈ پر انتظار میں کھڑا ہے۔ میں نے گاڑی روکی وہ سوار ہوا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا ممتاز صاحب رات میں نے عجیب خواب دیکھا ہے۔ حضور سجن سائیں کی زیارت نصیب ہوئی، آپ نے کہا کہ فقیر غلام قادر، ممتاز صاحب سامان لے کر آرہے ہیں آپ روڈ پر انتظار کریں اور ان کے ساتھ زمین پر پہنچیں کیونکہ انہوں نے زمین نہیں دیکھی ہوئی۔ اس پر ممتاز نے بھی رات کا خواب بتایا۔ جب یہ دوست درگاہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضور تبلیغ کے سلسلے میں دبئی تشریف لے گئے ہیں بعد میں ہم زمین پر گئے اور بجلی درست کی۔ محبوب سجن سائیں دبئی میں ہیں، ممتاز صاحب مورو شہر میں سورہے ہیں اور فقیر غلام قادر خواب میں پیغام سن کر روڈ پر انتظار کررہے ہیں۔ یہ اللہ والے ہیں جو سوئے ہوئے لوگوں سے کام لے رہے ہیں۔ دعا کے ساتھ نام کی عنایت رمضان شریف کا متبرک مہینہ تھا اس کے علاوہ وہ مبارک و بابرکت آخری عشرہ بھی تھا۔ نور چشم مسعود احمد سومرو بھی محبوب کی زیارت کے لیے درگاہ پر آیا ہوا تھا۔ حضرت صاحب نے مسعود سے نوکری کے متعلق پوچھنے کے بعد فرمایا آپ کو اولاد کیا ہے؟ مسعود نے عرض کی حضور تین بچیاں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بیٹا نہیں ہے؟ عرض کیا نہیں حضور۔ حضور نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فقراء کو فرمایا کہ مسعود کے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں نیک صالح فرزند عطا فرمائے۔ جب حضور حویلی مبارک جانے لگے تو واپس آکر مسعود کو فرمایا کہ آپ کو نام بتاتے ہیں فرمایا کہ اپنے بچے کا نام محمد جان رکھنا۔ مسعود کی بیوی امید سے تھیں نارمل طور پر اولاد ہوئی اور فون کرکے مجھے بتایا کہ میں نے بیٹے کا نام محمد جان رکھا ہے۔ میں نے کہا نام خوبصورت ہے سرہندی بزرگ کے نام سے مشابہت ہے لیکن تم نے یہ نام تجویز کہاں سے کیا۔ مسعود نے بتایا کہ حضرت صاحب نے دعا کے ساتھ نام بھی بتایا تھا۔ یہ حضرت صاحب کی انوکھی سخا ہے کہ ابھی بیٹا پیدا نہیں ہوا ور آپ نے نام بتادیا۔ میں نے سوچا کہ اکثر نام خاندان والے رکھتے ہیں تو حضور کے اس نام رکھنے میں کیا حکمت ہے۔ بڑی سوچ کے بعد سمجھ میں آیا کہ میرے والد کا نام محمد جان ہے اس اعتبار سے حضور نے بہترین تبدیلی فرماکر اس کا نام محمد جان رکھا۔ کشف القبور ڈاکٹر محمد عاشق جو جماعت کا فقیر محبوب کا عاشق اور بہت محبت والے شخص تھے۔ انہیں قدرت الٰہی سے بجلی کا کرنٹ لگا اور وصال کرگیا۔ ان کا گھر دستگیر کالونی مورو میں ہے۔ میں جب درگاہ شریف پر پہنچا تو حضرت صاحب نے فرمایا بیدار صاحب فقیر وصال کرگیا ہے، چلو کہ ان کے والد سے تعزیت کریں۔ حضرت صاحب کے ساتھ میں بھی مورو پہنچا۔ فقیر کے والد اور رشتہ دار بہت خوش ہوئے۔ حضرت صاحب نے فرمایا فقیر کی قبر پر جانا ہے۔ اس کے رشتہ داروں نے بتایا کہ قبرستان بہت دور ہے، کار کا راستہ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا ہم پیدل چلیں گے۔ میں نے فقیر شمس الدین کو تیار کیا کیونکہ اس نے قبر دیکھی ہوئی تھی۔ ہم جب قبرستان پہنچے تو شمس الدین نے ایک نئی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا قبلہ یہ فقیر کی قبر ہے۔ حضرت صاحب نے مغرب کی طرف قبر کے نزدیک تقریباً دومنٹ کھڑے ہونے کے بعد فرمایا کہ فقیر شمس الدین دیکھ کہیں فقیر کی قبر دوسری نہ ہو۔ فقیر شمس الدین قدم بھرتے ہوئے جلدی آگے گیا، دیکھا تو فقیر کی وہ قبر ہے جو درخت کے نیچے ڈھکی ہوئی ہے۔ عرض کیا حضور مجھ سے غلطی ہوگئی فقیر کی یہ والی قبر ہے۔ آپ اسی طرح قبر کے ساتھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ہاں فقیر کی قبر یہ ہے۔ حضرت صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کشف القبور کی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ مگر آپ اسے ظاہر کرنا پسند نہیں فرماتے۔ خواب میں بشارت نوجوان فقیر غلام حسین سابقی جو فقیر محمد سابقی کے فرزند ہیں اور مورو کے رہنے والے ہیں انہوں نے بتایا کہ فوجی سلیکشن کے دوران حیدرآباد گیا۔ امیدواروں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ میں بھی اس قطار میں کھڑا ہوگیا۔ کچھ وقت کے بعد ایک فوجی افسر آیا جو لائن میں کسی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ جب میری درگاہ والی ٹوپی پر اس کی نظر پڑی تو مجھے بازو سے پکڑ کر قطار سے نکالا اور پوچھا۔ بیٹا تم کس درگاہ کے غلام ہو؟ میں نے بتایا کہ حضور سجن سائیں کا غلام ہوں۔ اس نے کہا تیرا انٹرویو ہوگا، ابھی تم گاؤں جاؤ اور میڈیکل سرٹیفکیٹ لو، ٹریننگ کا آرڈر تمہیں گھر پر مل جائے گا۔ اس فوجی نے مزید بتایا کہ میں فوج میں میجر ہوں اور حضور سجن سائیں کا غلام ہوں۔ میں سورہا تھا کہ سجن سائیں کی زیارت ہوئی آپ نے فرمایا ہمارا فقیر قطار میں کھڑا ہے اس کا خیال رکھنا میں نیند سے اٹھا اور لائن میں اس فقیر کو ڈھونڈنے لگا۔ جب میری نظر درگاہ کی ٹوپی پر پڑی تو میں نے تم سے پوچھ لیا۔ اس نوجوان غلام حسین نے بتایا کہ میں ابھی پنجاب میں ٹریننگ لے رہا ہوں۔ دوران تعلیم خواب میں بشارت مولوی رحمت اللہ صاحب نے بتایا کہ حضرت سجن سائیں کو کراچی میں پڑھتے وقت شناختی کارڈ کی ضرورت پڑی۔ آپ نے فرمایا مولوی صاحب کنڈیارو میں جاکر میرا شناختی کارڈ بنواکر لاؤ۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ میں نے کنڈیارو پہنچ کر فارم لیا اور بھردیا۔ مگر جب شناختی علامت کا مرحلہ آیا تو میں کنفیوز ہوگیا کیونکہ مجھے حضور کی کسی خاص نشانی کا علم نہیں تھا۔ اس وقت آمدورفت کم تھی اور کراچی کے سفرکا بھی مسئلہ تھا۔ اسی پریشانی میں سورہا تھا کہ حضرت صاحب کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ نے فرمایا مولوی صاحب آپ پریشان کیوں ہیں؟ عرض کیا حضور یہ مسئلہ ہے۔ آپ نے اپنا بایاں ہاتھ کھولا اور فرمایا یہ دیکھو درمیان کی انگلی پر تل کا نشان ہے یہ نشان لکھ لینا۔ صبح اٹھ کر فارم پر وہ نشان لکھ لیا۔ جب واپس کراچی پہنچا تو دیکھا واقعی حضور کے بائیں ہاتھ کی درمیان انگلی پر تل کا نشان ہے۔ محبوب کے بائیں ہاتھ مبارک کی درمیانی انگلی پر تل کا نشان دیکھ کر آپ کے چھوٹے ہوتے ہی سے ولایت آثار محسوس کیے۔ الله پاڪ اهڙن ڪاملن ولين کي خضري حياتي عطا فرمائي انهن جو سايو اسان جي مٿان قائم دائم رکي آمين يارب العٰلمين . طالب دعا حافظ اسدالله ڏاهري نقشبندي طاهري
حافظ اسد الله صاحب، سڄڻ سائين جو مختصر تعارف ڪرائي اسان جي سنڌ سلامت جي اسلامي شخصيتن ۾ وڌيڪ موتي سنورايو اٿوَ مهرباني سائين۔۔۔۔۔