مان مين ايا تها

'مختلف موضوع' فورم ۾ معصوم سنڌي طرفان آندل موضوعَ ‏17 مئي 2013۔

  1. معصوم سنڌي

    معصوم سنڌي
    سينيئر رڪن

    شموليت:
    ‏18 اپريل 2012
    تحريرون:
    690
    ورتل پسنديدگيون:
    1,769
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    453
    ڌنڌو:
    جرنلسٽ
    ماڳ:
    لياري ڪراچي
    ماں میں آیا تھا

    حسن مجتبیٰ

    تری پیروں کی مٹی کو
    میں آنکھوں سے لگانے کو
    وصل کے گیت گانے کو
    ہجر کے گیت گانے کو
    ترے جہلم کے پانی میں نہانے کو
    ترے میلوں کے ٹھیلوں میں
    جھمیلوں میں
    میں خوش ہونے
    اور ہنسنے کو
    اور رونے کو
    میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
    نیلم کی ندی میں خود کو دھونے کو
    میں آیا تھا۔
    شکاری تاک میں تھے پر
    ہجر کے شجر پر بیٹھے پرندے کی طرح میں لوٹ آیا تھا
    وطن کے آسمانوں کو
    ندی نالوں
    درختوں اور ڈالوں کو۔
    یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
    جلاوطنی کی لمبی رات ہے
    صدیوں کو جاتی ہے
    وہاں سے ٹرین آتی ہے
    دکھوں کے دھندھلکوں میں
    شام میں لپٹی ہوئی
    یادوں کی ریکھائيں
    ریلوے کی پٹریوں پہ جھلملاتی ہیں
    یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
    میرے گائوں کے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں رکھی شیشم کی ٹیبل پر
    کوئی بھولا ہوا ناول ملا تھا
    زندگي کا جو
    جو کوئی بھولا ہوا بھٹکا مسافر بھول گیا تھا
    میں وہ ناول بھول آیا پر
    میں ویٹنگ روم اپنے ساتھ لایا تھا
    یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
    ویٹنگ روم میں بھولا ہوا ناول وہ میں ہی تھا
    میں چھوٹا تھا
    میں پونے سات برسوں کا اک بچہ تھا
    یہیں دینے کی گلیوں میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
    میں بوڑھے پن کی سرحد کب کی پار کر کر آیا ہوں
    میں کئي گیت لایا ہوں تری خاطر
    میں ویٹنگ روم سے نکلا نہیں ابتک
    گائوں کی ویران اسٹیشن
    میرے خوابوں میں جو آباد ہے ابتک
    حقیقت میں وہاں کوئی ٹرین ایسی بھی نہیں رکتی
    جو مجھ کو پھر تیرے پیروں میں لے آئے
    تیرے پیروں کی جنت میں جگہ دے دے
    دفن کردے مجھے اس آم کی گٹھلی کی مانند
    جو میرے گھر کے آنگن میں کھلا تھا جس پر بیھٹی شام کو وہ شور چڑیوں کا مری ہر شام میں اب بھی آتا ہے بلاتا ہے۔
    میں وہی میلا کچیلا کالڑا بچہ
    یہ سرحد میں بٹی دنیا
    جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو
    جہلم کے دریا کو
    نیلم کے نیلے پانیوں کو
    ندی جتنے ہمارے آنسوئوں کو
    مندروں میں گھنٹیوں جیسی ہوائوں کو
    یہ سرحد میں بٹی دنیا وہ آری ہے
    جو شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ دیتی ہے
    پاٹ دیتی ہے مری ماں کو
    میرے دادا کے دینے کو
    خوں پسینے کو
    سمادھی گردواروں مندروں اور مسجدوں گرجوں کو
    مزاروں اور مڑھیوں خانقاہوں کو
    یہ سرحد میں بٹی دنیا
    شیشم کے درختوں جنگلوں کو کاٹ کر
    کچھ بھی بنادے
    کتابوں سے بھری کوئی شیلف
    یا چوباروں میں کھلتی نرگسی آنکھوں کی کھڑکی
    کوئی بھگون کوئی بدھا
    کسی سوہنے سلونے یار سانول ڈھول کی مورت
    یا مصنوعی اعضا سپاہی کے
    یا کسی پھانسی کے تختے کو بنائے
    یہ سرحد میں بٹی دنیا۔
    یہ ستر برس پہلے کی کہانی ہے
    ماں میں آیا تھا
    جنم بھومی میری بھومی
    جنم تونے دیا مجھ کو
    تیرے پیروں کے نیچے
    وہ جو جنت ہے
    وہ جو ندی بہتی ہے
    کہتی ہے مجھ سے
    تھک گیا ہے تو اب تو سوجا
    پر سو نہیں سکتا
    مری مٹی مجھے کہتی ہے تو آ مٹی میں مٹی بن جا
    چاک پر چڑہ جا کمہارن کے
    پر ایسا ہو نہیں سکتا
    مگر میں سو نہیں سکتا
    کیوں تیرا ہو نہیں سکتا؟
    یہ سرحد میں بٹی دنیا
    ماں !
    میں آیا تھا۔
     

هن صفحي کي مشهور ڪريو