برطانیہ کے ’سپرم‘ بینک کے ڈونر انتہائی کم
شیئر
Image captionسپرم بینک کا مقصد ملک میں عطیہ کی کمی کو پورا کرنا تھا
برمنگھم میں برطانیہ کے نیشنل سپرم بینک یا نطفے کے قومی بینک کے کھلنے کے بعد اس میں ایک سال میں صرف نو مردوں نے اندراج کروایا ہے۔
اب یہ بینک اس میں مزید لوگوں کو شامل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور اس کی چیف ایگزیکٹیو لورا وجنز نے امید ظاہر کی ہے کہ مردوں کی غیرت کو للکارنے سے نطفے کا عطیہ بڑھ جائے گا۔
انھوں نے ایک نئی اشتہاری مہم کی تجویز دی ہے جس میں ایک کارٹون سپر ہیرو سپرمین دکھایا جائے گا۔ اس طرح کی مہم ڈنمارک میں بہت کامیاب ہوئی تھی۔
2005 میں برطانیہ میں قانون میں تبدیلی کی گئی تھی اور نطفہ دینے والوں کی گمنامی کی شق ختم کر دی گئی تھی جس کو رضاکارانہ طور پر عطیہ دینے والوں میں کمی کی وجہ سمجھا جا رہا ہے۔
وجنز امید کرتی ہیں کہ ’سپر مین‘ کے پیغام سے مدد ملے گی۔ لیکن پھر بھی نطفے کے قومی بینک میں کسی حد تک کافی عطیہ دہندگان آنے میں تقریباً پانچ سال لگ جائیں گے۔
انھوں نے گارڈیئن اخبار کو بتایا کہ ’اگر میں اشتہار دوں کہ ’مردو، اپنی اہلیت ثابت کرو، مجھے بتاؤ کہ تم کتنے بہتر ہو، تو مجھے سینکڑوں عطیہ دہندگان مل جائیں گے۔
’اسی طرح ڈنمارک کے لوگوں نے کیا تھا۔ وہ فخر سے کہتے ہیں کہ یہ وائکنگ کا حملہ ہے، ڈنمارک سے برآمدات میں بیئر، لیگو اور نطفہ ہے۔ یہ فخر کی بات ہے۔‘
نطفے کا قومی بینک برمنگھم کے خواتین کے ہسپتال میں بنایا گیا تھا اور اسے صحت کے شعبے سے 77,000 پاؤنڈ کی گرانٹ دی گئی تھی لیکن اب یہ خود ہی اپنی فنڈنگ اکٹھی کرتا ہے۔
اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ عطیہ دہندگان کی کمی سے نمٹا جا سکے جس کی وجہ سے مریض اکثر بیرون ممالک چلے جاتے ہیں یا پھر غیر رجسٹرڈ شدہ سروسز کا رخ کرتے ہیں۔
یہ برطانیہ کا پہلا کلینک ہے جہاں سے نسلی اقلیتوں کے لوگ مختلف عطیہ دہندگان سے اپنی پسند کا عطیہ منتخب کر سکتے ہیں۔
یہ جنوری 2016 سے برطانیہ کے مختلف کلینکوں میں ترسیل شروع کر دے گا۔