ممبئي: بالي ووڊ جي اداڪار عمران خان بولڊ اداڪاري ۾ عمران هاشمي کي پوئتي ڇڏي ڏنو، عمران خان اڄ ڪلهه پنهنجي نئين ايندڙ فلم “ڪٽي بٽي” جي مشهور ۾ مصروف آهي، هن ان فلم جي هڪ گاني ۾ بولڊ اداڪاري ڪئي آهي ، ان سلسلي ۾ عمران خان چيو ته منهنجي فلم ڪٽي بٽي اڃا رليز نه ٿي آهي ، ان جو ٽريلر ڏسي منهنجي بولڊ اداڪاري تي تنقيد ٿي رهي آهي جڏهن ته اهي رڳو ڪجهه منظر آهن، جنهن سبب مون تي تنقيد ڪئي پئي وڃي. http://www.onlineindusnews.com/?p=61205
بھارتی خریداروں کو لبھانے کے لیے غیر ملکی ماڈلز ایک گھنٹہ پہلے شیئر Image captionروس، برازیل اور سلووینیا جیسے ممالک کی ماڈلز بھارتی ملبوسات میں انٹرنیٹ شاپنگ میں بھارتی خریداروں کو لبھانے کے لیے غیر ملکی ماڈلز کا سہارا لینے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان ویب سائٹس پر کرتا، لہنگا، ساڑھی یا شلوار قمیض کی طرح تمام ہندوستانی لباس اب غیر ملکی ماڈلز پہنے ہوئے نظر آتی ہیں۔ بی بی سی ہندی کے ویبھو دیوان کا کہنا ہے دراصل انٹرنیٹ اور فیشن دونوں ہی بہت تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں اور اسی طرح انٹرنیٹ پر ٹرینڈز اور فیشن میں موسم کے مطابق کپڑے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس شعبے سے منسلک افراد کا خیال ہے کہ دونوں کو ہی قدم سے قدم ملا کر چلنا پڑتا ہے۔ فری لانس سٹائلسٹ انیل ہوسمنی گذشتہ 13 سالوں سے ماڈلز کو کئی مشہور برانڈز کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ وہ ان دنوں ایک آن لائن شاپنگ ویب سائٹ کی ایک نئی مہم میں مصروف ہیں، جہاں روس، برازیل، سلووینیا جیسے ممالک سے ماڈلز آئی ہیں۔ اور یہ تمام ماڈلز ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو پیش کرنے والے ملبوسات کو زیب تن کیے ویب سائٹس کے لیے پوز کرتی ہیں۔ Image copyrightBBC World Service Image captionبھارت میں غیر ملکی ماڈلز کا رجحان بڑھ رہا ہے انیل کہتے ہیں: ’اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرون ملک سے آنے والی ماڈلز بھارتی ماڈلز کے مقابلے زیادہ فٹ ہوتیں ہیں، اسی لیے وہ ہماری پہلی پسند ہیں۔ بھارت میں زیادہ تر ماڈلز اپنے جسم کے بالائی حصے پر زیادہ توجہ دیتی ہیں، وہیں غیر ملکی ماڈلز کا پورا جسم متوازن ہوتا ہے، جو انھیں ہر قسم کے پروڈکٹ کے لیے فٹ بناتا ہے۔‘ ایک دن میں ان ماڈلز کو تقریبا 80 سے 90 بار کپڑے تبدیل کر کے تصویر كھنچواني پڑتی ہیں۔ غیر ملکی ماڈلز کے پروفیشنل رویہ کے بارے میں انیل بتاتے ہیں: ’بھارتی ماڈلز کے مقابلے غیر ملکی ماڈلز زیادہ ذہنی کشادگی میں یقین رکھتی ہیں، وہ بلاجھجک جیسا کہو ویسے کرتی ہیں۔ اس ہمارا کام آسان ہو جاتا ہے کیونکہ ہم ان سے کم وقت میں زیادہ کام کروا پاتے ہیں۔‘ آن لائن شاپنگ کے لیے فوٹوگرافی بڑے بڑے سٹوڈیوز میں ہوتی ہے۔ Image captionاربن سٹوڈیو میں فوٹو اور ڈیزائن پر کام ہوتا ہے ایسا ہی ایک سٹوڈیو’اربن سٹوڈیوز‘ دہلی کے سے ملحق شہر گڑگاؤں میں ہے۔ اس کے تخلیقی سربراہ نوید مہتاب بتاتے ہیں: ’ہمارے یہاں بہت سے ممالک سے ماڈلز آتی ہیں۔ ان ماڈلز کو ملک و بیرون ملک سے کئی ایجنسیاں لے کر آتی ہیں۔ ’ایک ایجنسی ان ماڈلز کے ملک کی اور ایک ہندوستان کی دونوں مل کر، صارفین کی ضرورت کے مطابق ان ماڈلز کو بھارت بلاتے ہیں۔‘ ان کے مطابق: ’یہ ماڈلز زیادہ تر تین سے چار ماہ کے ویزے پر ہندوستان آتي ہیں۔ اسی دوران وہ ماڈلنگ کے ذریعے پیسے کماتی ہیں ساتھ ہی ہندوستان کی سیر بھی کرتی ہیں۔‘ گذشتہ پانچ سالوں میں آن لائن شاپنگ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ Image copyrightbbc Image captionروسی ماڈل ڈاریا ایک شوٹ کے دوران ہندوستانی لباس میں نوید کہتے ہیں: ’سب سے پہلے صرف ماڈل کے پاس ریمپ ہوتا تھا یا کچھ ٹی وی اشتہارات، لیکن آن لائن شاپنگ کے آنے سے جیسے جیسے ان پر فروخت کی اشیا بڑھی ہیں ویسے ویسے ان سامانوں کو فروخت کرنے کے لیے ماڈلز کے مطالبے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘ روس سے آنے والی ماڈل ڈاریا بتاتی ہیں: ’میں چار ماہ کے لیے بھارت پہلی بار آئی ہوں۔ مجھے یہ نہیں معلوم کی لوگ مجھے بھارتی پوشاک میں دیکھ کر آن لائن پر کپڑے خریدیں گے یا نہیں۔ ’لیکن اگر ایک خوبصورت ماڈل ایک کرتے میں اچھی لگ رہی ہے تو شاید انھیں پسند آئے۔ مجھے اس کام میں بہت مزہ آ رہا ہے۔‘ جبکہ دوسری جانب بھارتی ماڈل رگھو كاٹل کا کہنا ہے کہ ’غیر ملکی ماڈلز آج کل آن لائن مارکیٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ان کا خیال ہے کہ غیر ملکی ماڈلز کے رنگ و روپ پر بھارتی خریدار اور کمپنی دونوں ہی فدا ہو جاتے ہیں اور یہی بات انھیں ماڈل بناتی ہے۔‘
لندن میں نوٹنگ ہِل کارنیوال کی اختتامی پریڈ 1 ستمبر 2015 شیئر Image copyrightAFP Image captionاس دو روزہ اس کارنیوال میں دس لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہوئے ہیں برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں پیر کو مشہور نوٹنگ ہِل کارنیوال کی اختتامی پریڈ کی جا رہی ہے جس میں رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس60 کے قریب بینڈ حصہ لے رہے ہیں۔ نوٹنگ ہِل کارنیول کے رنگ (تصاویر) اس موقع پر کارنیوال میں شریک افراد نے بارش سے بچنے کا لباس پہن کر اور چھتریاں تان کر لندن کی سڑکوں پر سالانہ مارچ کیا۔ کارنیوال میں 38 کے قریب صوتی نظام استعمال کیے گئے تا کہ ہجوم کو تفریح فراہم کی جا سکے۔ خیال ہے کہ دو روزہ اس کارنیوال میں دس لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہوئے ہیں۔ اس سے قبل ایک شخص کو چاقو مار کر زخمی کیا گیا جس کے نتیجے میں پولیس نے تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ اتوار کو پولیس نے کارنیوال میں کل 126 گرفتاریاں کی تھیں جن کا تعلق امنِ عامہ سے تھا۔ دو روزہ تقریبات کے دوران اس علاقے میں سڑکیں بند تھیں۔ کارنیوال میں جانے والی ربیکا پرکنز کا کہنا ہے ’سُر اور تال سے ڈوبی ہوئی تھاپ پر جسم کو ہلانا اور ایسے لوگوں میں گھِرا ہونا جو یہی کچھ کر رہے ہوں اور پھر اس پر ہنسنا اور اجنیبوں سے باتیں کرنا۔۔۔اس میں کچھ خاص بات ہے۔ مجھے یہ بہت اچھا لگتا ہے۔‘ Image copyrightGetty Image captionاتوار کو پولیس نے کارنیوال میں کل 126 گرفتاریاں کی تھیں جن کا تعلق امنِ عامہ سے تھا اس سال کارنیوال پر تنقید بھی ہوئی ہے کیونکہ منتظمین نے صحافیوں اور فوٹوگرافروں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایک سو پاونڈ دے کر شرکت کی رسمی منظوری حاصل کریں اور کارنیوال کی ویب سائٹ پر اپنا کام شیئر بھی کریں۔ اس بات پر بھی کچھ اختلاف تھا کہ کارنیوال سرکاری طور پر کس برس شروع ہوا۔ نوٹنگ ہلِ کارنیوال انٹرپرائز ٹرسٹ کے مطابق کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پہلی بار کارنیوال سنہ 1964 میں منعقد ہوا جبکہ دیگر اصرار کرتے ہیں کہ کارنیوال کا آغاز سنہ 1966 میں ہوا تھا۔
پہاڑی کی ’چوٹی‘ پر راہب کی تلاش 1 ستمبر 2015 شیئر Image copyright Image captionملازت کے خواہش مند اپنا سی وی اور فوٹو بھیجیں اور ہاں انھیں کیٹالان زبان بھی آنا چاہیے سپین میں قرونِ وسطیٰ کی ایک خانقاہ نے ایک راہب کی نوکری کے لیے اشتہار دیا ہے۔ شمال مشرقی علاقے کیٹالونیا میں واقع خانقاہ ’اور لیڈی آف دی راک‘ نے فیس بک پر ملازمت کی شرائط شائع کی ہیں۔ ان کے مطابق کامیاب امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’تمام غیر مہذب اور بد اخلاق حرکات باہر چھوڑ کر آئے‘ اور اسے ’خانقاہ کے تمام مناسب فرائض‘ ادا کرنے ہوں گے۔ ان میں قدیم خانقاہ کی حفاظت اور دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ خانقاہ مونٹ رائگ ڈیل کیمپ کے سامنے ایک پہاڑ پر واقع ہے۔ خانقاہ میں زندگی کے متعلق لوگوں کے عام خیال کے مترادف اس نوکری میں بہت کم تنہائی میسر آئے گی کیونکہ کامیاب امیدوار کے کام میں سیاحوں کو خانقاہ کی سیر کرانا بھی شامل ہے۔ کسٹمر سروس ’ضروری‘ ہے اور ’اور لیڈی آف دی راک‘ کی تاریخ کے متعلق علم رکھنے والے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ایک سال کی اس نوکری میں مفت رہائش اور ایک ہزار یورو خرچ دیا جائے گا جو کہ تمام عرصے کے لیے ہے۔ ایک مقامی ویب سائٹ کے مطابق اس جگہ پر ایک گرجا کے متعلق پہلی مرتبہ 1299 میں لکھا گیا تھا اور 1916 میں ایک مشہور ہسپانوی آرٹسٹ ہوان مائرو نے اس کی پینٹنگ بنا کر اسے حیاتِ جاوداں بخش دی تھی۔
بھارت میں کمبھ میلے کے دوران سیلفی لینے پر پابندی 8 گھنٹے پہلے شیئر Image copyrightREUTERS Image captionعوام کے لیے سیلفیاں بنانے پر پابندی گوداوری دریا میں ’مقدس غسل‘ کے دنوں میں لگائی جائے گی بھارت میں ہندوؤں کے اہم مذہبی تہوار کمبھ میلے کے موقع پربھگڈر یا ہنگانی حالات سے بچنے کے لیےسیلفی لینے کے لیے ممنوعہ علاقہ ’سلیفی فری زون‘ بنایا گیا ہے۔ اس پابندی کا اطلاق کمبھ میلے کے موقع پر کیا جا رہا ہے۔ ہر تین سال کے بعد ہندوں کا مذہبی تہوار کمبھ میلا منعقد کیا جاتا ہے اور اس میلے میں تقریباً تین لاکھ سے زیادہ زائرین شرکت کرتے ہیں۔ حکام کے مطابق عوام کے لیے سیلفیاں بنانے پر پابندی گوداوری دریا میں ’مقدس غسل‘ کے دنوں میں لگائی جائے گی۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ ایک سروسے سے معلوم ہوا کہ عوام سیلفیاں لینے میں بہت وقت ضائع کرتے ہیں۔ جس سے مجمع کے آگے بڑھنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور دھکم پیل کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ ریاست مہاراشٹرا کے مختلف علاقوں میں لگے دو میلوں میں ’نو سیلفی زون‘ دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ فیصلہ 100 رضاکاروں کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے بعد کیا گیا۔ یہ تحقیق کومبھاتون گروپ کے اشتراک سے کی گئی جو حکام کے ساتھ مل کر میلے کی نگرانی کے لیے کام کرتا ہے۔ کومبھاتون کے سی ای او نے انڈین ایکسپریس نامی اخبار کو بتایا کہ’13 جولائی سے اب تک ہمارے رضاکاروں کی جانب سے جمع کیے گیے اعدادوشمار سے یہ معلوم ہوا ہے کہ عوام کو سیلفیاں بنانے سے روکنا ضروری ہے۔ کیوں کہ وہ سیلفی بنانے کے لیے خطرناک مقامات پر چڑھنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔‘ ایک مقامی سرکاری اہلکار ڈاکٹر پراون گیدم نے اخبار کو بتایا کہ سیلفی بنانے پر پابندی’صرف مقدس غسل کے دنوں میں ہی لگائی جائے گی کیوں کہ ہم عام دنوں میں تہوار کا مزہ خراب نہیں کرنا چاہتے۔