جاويد ڀٽيءَ جون تحريرون

'مختلف موضوع' فورم ۾ جاويد ڀٽي سکر طرفان آندل موضوعَ ‏8 سيپٽمبر 2015۔

موضوع جو اسٽيٽس:
وڌيڪ جواب نه ٿا موڪلي سگهجن.
  1. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
  2. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
  3. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
  4. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
  5. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
    شامی پناہ گزینوں پر خلیجی ریاستوں کے دروازے بند کیوں؟
    • 8 ستمبر 2015
    شیئر
    [​IMG]Image copyrightGetty
    Image captionلاکھوں شامی پناہ گزین ایک بہتر مستکبل کی تلاس میں مغربی ممالک کا سفر کر رہے ہیں
    ترکی کے ایک ساحل سمندر پر تین سالہ آئیلان کردی کی لاش اور کئی ٹرین سٹیشنوں اور سرحدوں پر پھنسے شامی پناہ گزینوں کی تصاویر دیکھ کر اب جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے لوگوں کے لیے زیادہ مدد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

    زیادہ غم و غصہ خلیجی ممالک کے تعاون کی تنظیم جی سی سی کی عرب ریاستوں پر کیا جا رہا ہے جن میں سعودی عرب، بحرین، کویت، قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ ان ممالک نے پناہ گزینوں پر اپنے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔

    لیکن دوسری طرف یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ خلیجی ریاستیں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھی بھی نہیں ہوئی ہیں بلکہ ان کے شہریوں کی فیاضی مشہور ہے۔

    ان ممالک میں انفرادی خیراتی عطیات سینکڑوں ہزاروں ڈالر تک چلا جاتا ہے۔ جب قطر پٹرولیم جیسی قومی صنعتوں کے کارکنوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہر ماہ اپنی تنخواہ سے کچھ رقم شام کے پناہ گزینوں کو دینا چاہیں گے تو کئی کارکنوں نے ہاں کر دی۔

    خلیجی ریاستوں نے خیراتی اداروں اور انفرادی عطیات کے ذریعے تقریباً 90 کروڑ ڈالر اکٹھے کیے ہیں۔

    لیکن جیسے جیسے شام کی جنگ لمبی ہوتی گئی اسی طرح ہی کیمپوں میں رہنے والے پناہ گزینوں کے لیے وسائل ناکافی ہوتے گئے۔

    دنیا کو اتنے بڑے پیمانے پر نقل و حرکت سے نمٹنے کے لیے دیگر حل ڈھونڈنے پڑیں گے کیونکہ شامی پناہ گزین اس جنگ سے تھک کے اور کیمپوں میں لمبے عرصے تک رہ کر تنگ آ چکے ہیں ایک زیادہ محفوظ اور خوشحال مستقبل کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

    کیمپوں میں رہنے والے پناہ گزینوں کے لیے خوراک اور پناہ دینا کل کے مسئلے کا ایک حل تھا۔ اب سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان لاکھوں لوگوں کو کہیں رہنے کی جگہ ڈھونڈ کر دی جائے اور خلیجی ریاستیں اسی مسئلے کا حل ڈھونڈ رہی ہیں۔

    [​IMG]Image copyrightReuters
    Image captionخلیجی ریاستوں پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے نہیں کھول رہے ہیں
    اگرچہ خلیجی ریاستوں نے کچھ شامی شہریوں کو تارکین وطن کارکنوں کے طور پر اندر آنے دیا ہے، لیکن ان ممالک میں سے کسی بھی ملک نے اب تک پناہ گزینوں کو سپانسرشپ یا ورک پرمٹ کے بغیر آنے کی کوئی پالیسی نہیں تیار کی ہے۔

    یہ بات سمجھنے کے لیے خلیجی ریاستوں کے اپنی سرحدوں کے بارے میں خدشات کو سمجھنا ضروری ہے۔

    سنہ 2012 میں بشار الاسد کے خلاف جنگ سّنی خلیجی ریاستوں اور ایران کے اتحادیوں کے درمیان مقابلہ بنتی گئی جس کے بعد خلیجی ریاستوں میں یہ خدشہ پھیل گیا کہ اسد کے وفادار شامی لوگ بدلہ لینے کے لیے خلیجی ریاستوں میں گھسنے کی کوشش کریں گے۔

    یہ پالیسی اب تک نہیں بدلی ہے اور قطر، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات کو سخت خدشہ ہے کہ اسد کے وفادار لوگ کبھی بھی حملہ کر سکتے ہیں۔

    خلیج میں گذشتہ تین سال سے کچھ افواہیں پھیل رہی ہیں کہ دہشت گردوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے لیکن اسد کے حامیوں کے طرف سے کسی بھی سازش کی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔

    اس کے علاوہ خلیج میں اگر ہزاروں شامی پناہ گزین آگئے تو جس انتہائی نازک جغرافیائی توازن سے خطہ چل رہا ہے، وہ بھی بدل سکتا ہے۔

    مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات اور قطر میں جتنی کل آبادی ہے اس میں مقامی شہریوں کی تعداد تارکین وطن کارکنوں سے صرف 10 فیصد زیادہ ہے۔

    خلیجی ریاستوں میں غیر ملکی شہریوں کو صرف اس صورت میں رہنے کی اجازت ہے اگر ان کو یا ان کے اہل خانہ کو وہاں مستقل روزگار مل جائے۔ خلیج میں بغیر کام کیے ہمیشہ رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ کانٹریکٹ ختم ہوتے ہی تمام تارکینِ وطن کو واپس اپنے ممالک لوٹنا ہوتا ہے۔

    خلیج ریاستیں اسی طرح ہی چلتی ہیں، وہاں پر کم اور اعلیٰ ہنر مند مزدور زیادہ تعداد میں آتے اور نکلتے ہیں۔

    اس لیے ایسا سوچنا بھی خلیجی ریاستوں کے لیے بہت مشکل ہے کہ خطے میں ہزاروں غیر ملکی واپس جانے کی تاریخ یا کسی روزگار کے بغیر آ سکتے ہیں۔

    ابھی تک خلیج میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جیسی شامی پناہ گزین خلیج کی شناخت اور سماجی ساخت پر نقش کر رہے ہیں۔ اور اس لیے خلیجی ریاستوں کے پاس اس بحران سے متعلق سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔

    یہ جانچنا بہت مشکل ہے کہ کس طرح آبادیاتی تبدیلی کا خوف اور شہری شناخت کو خطرات عوامی دباؤ اور سفارتکاری سے بدلے جا سکتے ہیں، خصوصاً مغربی ممالک کی طرف سے ڈالا گیا دباؤ۔

    خلیج میں حکرانوں کی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے بہت کم عوامی بحث ہوتی ہے۔

    اس کے علاوہ خلیجی امرا کا یہ خیال ہے کہ مغربی ممالک نے بشار الاسد اور اس کی حکومت سے نمٹنے کے لیے اگر پہلے کچھ کیا ہوتا تو شاید یہاں تک نوبت نہ آتی۔ امکان ہے کہ مغربی سفارت کاروں کی درخواستوں پر کوئی کان نہیں دھرے گا۔
     
  6. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
  7. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
    [​IMG]
     
    2 ڄڻن هيء پسند ڪيو آهي.
  8. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
  9. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
    چائے کی پیالی کے پیچھے دردناک کہانی
    • 8 گھنٹے پہلے
    شیئر
    [​IMG]Image copyrightGetty
    Image captionچائے کے باغات میں کام کرنے والوں کے لیے نہ صرف سہولیات کا فقدان ہے بلکہ ان کی اجرتیں بھی کم ہیں
    برطانیہ میں استعمال ہونے والی کئی بڑی چائے کی کمپنیوں کی جانب سے چائے کے باغات والے علاقوں کے حالات بہتر بنانے میں کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ چائے کی ان کمپنیوں میں بڑے بڑے نام جیسے پی جی ٹپس، ٹیٹلی، اور ٹواننگس شامل ہیں۔

    اس بات کی یقین دہانی بی بی سی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد کرائی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد خطرناک اور غیر انسانی ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔

    اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد ہیرڈز نے چائے کی کچھ مصنوعات کی فروخت بند کر دی ہے، جبکہ ضابطہ اخلاق کی پیروی کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والی تنظیم ’رین فارسٹ‘ نے تسلیم کیا ہے کہ اس تحقیق کے ذریعے ان کے جانچ پڑتال کے طریقہ کار میں رہ جانے والے سقم سامنے آئے ہیں۔

    بی بی سی کے ریڈیو فور کے دستاویزی پروگرام فائل آن فور اور بی بی سی نیوز کی مشترکہ کاوش کے نتیجے میں پتہ چلا کہ بھارت کے شمال مشرقی حصے آسام میں لوگ گندے اور ٹوٹے پھوٹے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ کئی خاندانوں کو بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں ہے اور وہ رفع حاجت کے لیے چائے کی جھاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

    چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کے لیے نہ صرف سہولیات کا فقدان ہے بلکہ ان کی اجرتیں بھی اتنی کم ہیں کہ وہ اور ان کے اہل خانہ غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ ان ملازمین میں مہلک بیماریوں کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    اور پھر وہ کارکن جو کیمیائی مواد کا چھڑکاؤ کرتے ہیں ان کے لیے کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں ہوتے اور ان کی صحت کو درپیش خطرات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چند ریاستوں میں بچوں سے بھی مزدوری لی جاتی ہے۔

    بیت الخلا کی ناکافی سہولت
    [​IMG]
    Image captionزیادہ تر بیت الخلا یا تو نکاسی آب نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں یا ٹوٹ چکے ہیں
    بھارت میں باغات کے مالکان قانون کے تحت ملازمین کے لیے بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت سے مزین ’مناسب‘ رہائشی انتظامات کرنے کے پابند ہیں۔

    اس کے باوجود بھی چائے کے باغات میں گھروں کی حالت انتہائی بوسیدہ ہے، جن کے چھتیں ٹپکتی ہیں، جبکہ سیلن زدہ دیواروں میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ زیادہ تر بیت الخلا یا تو نکاسیِ آب نہ ہونے کے باعث بند پڑے ہیں یا ٹوٹ چکے ہیں۔

    وہااں کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ سے بار بار درخواست کے بعد بھی گھروں کی مرمت نہیں کی جاتی اور کبھی کبھی تو کئی سال لگ جاتے ہیں۔

    نالیاں کھلی ہوئی ہونے اور گندگی بھر جانے کے باعث استعمال کے قابل نہیں ہیں۔ جبکہ کچھ بدرو ابل ابل کر بہہ رہی ہیں جن کی وجہ سے فضلے والا پانی ملازمین کی رہائش گاہوں تک پہنچ رہا ہے۔

    زیادہ تر گھروں میں بجلی کی سہولت نہیں ہے جبکہ ایک جگہ تو حالات اتنے خراب ہو گئے کہ کارکن برساتی نالی کا پانی پینے پر مجبور ہو گئے تھے۔

    چائے کی پیداوار کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی میک لاؤڈ رسل کے باغات کے مینیجر نے تسلیم کیا کہ ’وسیع پیمانے پر مرمت کا کام‘ کرنے کی ضرورت ہے۔

    مک لاؤڈ رسل کے آسام کے باغات سے چائے کی بڑی کمپنیوں جیسے پی جی ٹپس، لپٹن، ٹیٹلی اور ٹوائننگس کو چائے کی ترسیل کی جاتی ہے۔

    کارکنوں کو درپیش صورت حال کو ’ناقابل قبول‘ گردانتے ہوئے مینیجرنے بتایا کہ وہاں 740 گھروں کے لیے صرف 464 بیت الخلا موجود ہیں۔

    [​IMG]
    Image caption740 گھروں کے لیے صرف 464 بیت الخلا موجود ہیں
    بھارت میں چائے کی ایسوسی ایشن کے آسام کے سربراہ اور بھارت میں چائے کی کاشت کرنے والوں کے نمائندے نے بھی تسلیم کیا ہےکہ سہولیات معیار سے گری ہوئی ہیں۔

    بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے سندیپ گھوش نے کہا کہ ’کھلی نالیوں میں فضلہ نہ میرے لیے قابل قبول ہے اور نہ ہی ایسوسی ایشن کے لیے۔ ان مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔‘

    غذائیت کی کمی
    زیادہ تر بھارتی مایوس کن صورت حال میں رہ رہے ہیں جبکہ بھارت کا قانون کہتا ہے کہ چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد کے لیے مناسب مکان اور صفائی ستھرائی ان کی اجرت میں شامل ہے۔

    اس صنعت میں سب سے کم اجرت دینے کے لیے چائے کے باغات کے مالکان کی جانب سے یہی جواز دیا جاتا ہے۔ آسام کے چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کی روزانہ کی اجرت 115 روپے ہے جو ایک برطانوی پاؤنڈ کے برابر ہے۔ یہ رقم آسام میں کم سے کم اجرت کی حد 117 روپیہ سے بھی کم ہے۔

    چائے کے باغات میں کم اجرت اور ابتر رہائشی صورت حال میں رہنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

    مختلف تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہیں جو بھارت کے اپنے مایوس کن معیار سے بھی بہت کم ہے۔

    علاقے میں کام کرنے والے بڑے جنرل ہسپتال آسام میڈیکل کالج کے میڈیکل ڈائریکٹر کے مطابق ان باغات میں کام کرنے والے دس مریضوں میں سے نو غذائیت کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔

    پروفیسر اے کے داس کہتے ہیں کہ غذائیت میں کمی اور کمزوری کے باعث ان ملازمین اور ان کے اہل خانہ میں ناقص صفائی کے ماحول سے متاثرہ بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    [​IMG]
    Image captionبچوں سے مزدوری لینے کے بارے میں اقوام متحدہ کے قوانین میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں سے پورے دن کی مزدوری لینے کی ممانعت ہے
    انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر مریض ’غریب علاقوں کی بیماریوں‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ جن میں دست، ناک اور گلے کا انفیکشن، جلدی بیماریاں، اور خطرناک بیماریاں، تپِ دق اور گردن توڑ بخار شامل ہیں۔

    انھوں نے ایک بار بار دہرائی جانے والی المناک صورت حال بھی بیان کی کہ بچے کمزورحالت میں غذا کی کمی کا شکار ہو کر آتے ہیں اور قابل علاج بیماری سے ٹھیک ہونے کے لیے بھی انھیں جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اور جب وہ ہسپتال سے جاتے ہیں تو دوبارہ اسی حالت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بچوں سے غیر قانونی مزدوری کروانا
    اور پھر بی بی سی نے تکلیف دہ صورت حال دریافت کی۔

    مشہور چائے کے باغات ڈومر ڈولنگ میں ایک 14 سالہ بچی چائے کے پتیاں چن رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ دو ماہ سے وہاں پورے دن کی ملازمت کر رہی ہیں۔

    ڈومر ڈولنگ کے باغات کی مالک آسام کمپنی کا شمار دنیا کی چند سب سے پرانی کمپنیوں میں ہوتا ہے جو ٹوائن ننگس، یارک شائر ٹی، ہیرڈز اور فورٹنم اینڈ میسن کو چائے فراہم کرتی ہے۔

    دو دیگر بچوں نے بھی بتایا کہ وہ آسام کمپنی ہی کے باغات میں نو عمری سے ہی پورے دن کی ملازمت کر رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ بچوں سے مزدوری لینے کے بارے میں اقوام متحدہ کے قوانین میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں سے پورے دن کی مزدوری کی ممانعت ہے۔

    نقصان دہ کیمیائی مواد سے بچاؤ کے ناکافی حفاظتی انتظامات
    [​IMG]
    Image captionوہ کارکن جو کیمیائی مواد کا چھڑکاؤ کرتے ہیں ان کے لیے کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں ہوتے
    چائے کے کچھ باغات میں صحت کے ناکافی حفاظتی انتظامات دیکھنے میں آئے۔

    آسام کمپنی کے زیر انتظام چائے کے کچھ باغات میں کارکنوں کو کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤ کے وقت وہ حفاظتی آلات بھی مہیا نہیں کیے جاتے جو قانون کے تحت انھیں ملنے چاہییں۔

    ان کارکنوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ سال میں ایک بار حفاظتی سامان مہیا کیا جاتا ہے لیکن تقریباً دو ماہ ہی میں بدلنے کے قابل ہوجانے کے باوجود انھیں تبدیل نہیں کیا جاتا۔

    نقصان دہ کیمیائی مواد کے جو مضر صحت علامات سامنے آئی ہیں ان میں سانس لینے میں دشواری، چہرے اور ہاتھوں کا سُن ہو جانا، جلد پہ جلن کی شکایت اور بھوک کا نہ لگنا شامل ہیں۔

    مک لاؤڈ رسل کے کچھ باغات میں کارکنوں نے کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کرتے وقت حفاظتی کوٹ تو پہن رکھے تھے لیکن اس کے علاوہ دیگر کوئی حفاظتی سامان ان کے پاس نہیں تھا۔

    پروفیسر داس نے بتایا کہ روزانہ ہی ان کے پاس کیڑے مار ادویات کے شکار مریض آتے ہیں۔

    ادھر آسام کمپنی نے بی بی سی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو ’بے بنیاد اور جھوٹا‘ قرار دیا ہے۔

    مک لاؤڈ کمپنی کا کہنا ہے کہ کارکنوں کے لیے مناسب رہائشی اورحفاظتی انتظامات ان کے ادارے کی اولین ترجیح ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو حفاظتی آلات مفت مہیا کرتے ہیں جنھیں استعمال کرنے کے لیے وہ تربیت یافتہ ہیں اور ان آلات کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اکثر معائنہ کیا جاتا ہے۔

    [​IMG]
    Image captionپروفیسر داس نے بتایا کہ ان کے پاس روزانہ کیڑے مار ادویات کے شکار مریض آتے ہیں
    رہائشی حصوں تک رسائی پر پابندی
    قانون کی طرف سے چائے کے باغات میں کام کرنے والے کارکنوں کے رہائشی حصوں تک یقینی رسائی کی اجازت کے باوجود باغات کی انتظامیہ کی جانب سے ان جگہوں پر سخت پہرہ ہوتا ہے۔

    ان باغات میں کام کرنے والے کارکن ان پابندیوں کے آگے مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ان باغات کی انتظامیہ ان کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر حاوی ہوتی ہے۔ رہائشی حصوں تک رسائی کے قانون کا مقصد یہی ہےکہ وہاں کا معائنہ کر کے ان افراد کی فلاج و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔

    اس کے باوجود بھی بی بی سی کے عملے کو مک لاؤڈ رسل کے باغات میں ملازمین کے رہائشی حصوں میں داخل ہونے سے نہ صرف روک دیا گیا تھا بلکہ بی بی سی کے عملے کو فیکٹری کے اندر ہی کچھ دیر کی لیے قید بھی کر دیا گیا تھا۔

    یہ بات سب جانتے ہیں کہ آسام میں چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد کو ضروریات زندگی کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔

    گذشتہ سال جنوری میں کولمبیا لا سکول کے ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ نے ٹیٹلی ٹی بنانے والے ٹاٹا کے چائے کے باغات کے بارے میں ایک اہم تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی۔

    اس تحقیق میں کہا گیا تھا کہ وہاں جو ’غیر انسانی‘ اور ’تکلیف دہ‘ صورت حال ہے، پوری صنعت اس کا شکار ہے۔

    ٹاٹا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے باغات میں ’ کئی معاشرتی سطح کے سنگین مسائل‘ کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے ملازمین کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔

    [​IMG]
    Image captionٹاٹا نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے باغات میں ’کئی معاشرتی سطح کے سنگین مسائل‘ کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں
    بی بی سی کی جانب سے اٹھائے گئے دیگر مسائل پر بات کرتے ہوئے ٹاٹا نے کہا کہ وہ اپنی اس صنعت سے وابستہ تمام لوگوں کے ساتھ ’منصفانہ اور اخلاقی‘ سلوک کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایتھیکل ٹی پارٹنرشپ (ای ٹی پی ) کے ساتھ ان کی رکنیت چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے ان کے ارادےکا منھ بولتا ثبوت ہے۔

    ایتھیکل ٹی پارٹنرشپ، چائے کی صنعت میں کام کرنے والے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے برطانیہ کی چائے کی کمپنیوں جانب سے قائم کی گئی ہے۔

    اے ٹی پی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سارا رابرٹس نے ٹوائننگس کی جانب سے بھی بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس ادارے کے اراکین چائے کی کاشت والے علاقوں ’ کو درپیش مسائل سے آگاہ ہیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ ایتھیکل ٹی پارٹنرشپ ان باغات میں کام کرنے والوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے اس صنعت کے ساتھ مل کر مشترکہ کوششیں کر رہی ہے۔ رابرٹس نے کہا کہ ہماری توجہ اس صنعت میں مجموعی طور پر بہتری لانے پر ہے تاکہ ’ہر ایک کی زندگی بہتر ہو جائے خواہ اس کا تعلق بھارت سے ہو یا کہیں اور سے۔‘

    فورٹنم اینڈ میسن کا کہنا ہے کہ ان باغات میں کام کرنے والوں کی بہتری ’سب سےاہم‘ ہے۔ فورٹنم اینڈ میسن کے مطابق ان کی چائے کی تمام مصنوعات ایتھیکل ٹی پارٹنرشپ کے زیر سایہ تیار ہوتی ہیں۔

    [​IMG]Image copyrightBBC World Service
    Image captionپی جی ٹپس اور لپٹن کی مالک کمپنی یونی لیور کا کہنا ہے کہ وہ بی بی سی کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں
    پی جی ٹپس اور لپٹن کی مالک کمپنی یونی لیور کا کہنا ہے کہ وہ بی بی سی کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، لیکن ان پر تو پہلے ہی کام ہو چکا ہے۔

    تاہم کمپنی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ’ابھی بھی وہاں معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

    انھوں نے کہا کہ وہ ’چائے فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ مل کر ذمہ دارانہ اور پائیدارانتظامات کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘

    ہیرڈز کا کہنا ہے کہ بی بی سی کی تحقیقی رپورٹ سامنے آنے کے بعد انھوں نے ڈومر ڈلنگ کی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتایا کہ رواں سال انھوں نے چائے کے کسی باغ سے خریداری کی ہی نہیں۔

    اسی دوران یارک شائر ٹی بنانے والے ٹیلرز آف ہیروگیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ادارے کو بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج پر ’شدید تشویش‘ ہے اور وہ ’اس معاملے کی ترجیحی بنیادوں پر تحقیقات کر رہے ہیں۔‘

    بی بی سی کی جانب سے جن چائے کے باغات کا دورہ کیا گیا ان تمام باغات کو رین فارسٹ الائنس کی جانب سے ’فراگ سیل‘ سے نوازا گیا ہے جو مشہور چائے کے ڈبوں پر لگی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔

    رین فارسٹ الائنس ایک نجی ادارہ ہےجس کا دعویٰ ہے کہ وہ مختلف النوع حیاتیاتی نظام کو محفوظ بنانے اورلوگوں کے لیے محفوظ ذریعہ معاش کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی فراگ سیل یعنی مینڈک کی شکل کی مہر ثبت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کاروبار ان باغات میں کام کرنے والے ’ملازمین، ان کے اہل خانہ اور مقامی افراد کے تحفظ کے لیے‘ طے کیے گئے ’سخت معیار‘ کے مطابق ہے۔

    [​IMG]
    Image captionقانون کی طرف سے چائے کے باغات میں کام کرنے والے کارکنوں کے رہائشی حصوں تک یقینی رسائی کی اجازت کے باوجود باغات کی انتظامیہ کی جانب سے ان جگہوں پر سخت پہرہ ہوتا ہے
    ایک مقامی نجی تنظیم پجھرا کے ایک کارکن سٹیفن ایکا چائے کے باغات میں کام کرنے والے افراد کی بہتر زندگی کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ رین فارسٹ الائنس کا فراگ کا نشان ’لوگوں کی بہبود سے زیادہ چائے کی فروخت‘ سے متعلق ہے۔

    رین فارسٹ الائنس کے ڈائریکٹر ایڈورڈ ملارڈ نے سرٹیفیکٹوں کے اجرا سے متعلق مسائل کو تسلیم کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کیونکہ یہ جانچ ایک سالانہ طریقہ کار پر مبنی ہے اس لیے یہ مکمل طور پر صحیح نہیں ہو سکتی۔‘

    انھوں نے تسلیم کیا کہ آسام میں رہائشی انتظامات ’مخصوص مسئلہ‘ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’رہائشی علاقوں میں سنجیدہ بنیادوں پر طویل مدتی بہتری لانا‘ ضروری ہے۔

    انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر جانچ کرنے والوں کو بچوں سے غیر قانونی طور پر کام لینے یا کارکنوں کے بغیر حفاظتی آلات کے کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کرنے کے شواہد ملے تو ان باغات کے سرٹیفیکیٹ منسوخ کر دیے جائیں گے۔
     
  10. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
  11. جاويد ڀٽي سکر

    جاويد ڀٽي سکر
    نئون رڪن

    شموليت:
    ‏29 جولائي 2015
    تحريرون:
    101
    ورتل پسنديدگيون:
    88
    ايوارڊ جون پوائينٽون:
    0
موضوع جو اسٽيٽس:
وڌيڪ جواب نه ٿا موڪلي سگهجن.

هن صفحي کي مشهور ڪريو