عبدالرحمان اوٺو ٿرپارڪر
جونيئر رڪن
نور محل بہاولپور
(تحریر, عبدالرحمان اوڻھو)
آنے والے آتے ہیں صرف جانے کے لیے
یادیں چھوڑ جاتے ہیں
آئندہ نسلوں کي عبرت کے لیے ۔
پاکستان کی سرزمین تاریخ تہذیب اور فنِ تعمیر سے بھرپور ہے۔
انہی تاریخی ورثوں میں سے ایک بے مثال عمارت ہے
نور محل جو بہاولپور کے دل میں واقع ہے۔
یہ محل نہ صرف ماضی کے نوابوں کے دور کی علامت ہے
بلکہ فن ثقافت اور تاریخ کی زندہ مثال بھی ہے۔
نور محل کی بنیاد 1872ء میں
نواب صادق محمد خان چہارم نے رکھی اور یہ 1875ء میں مکمل ہوا۔
اس کی تعمیر میں اطالوی Italian اور اسلامی فنِ تعمیر کو یکجا کیا گیا
جس کی وجہ سے اس عمارت میں ایک منفرد جمالیاتی عظمت جھلکتی ہے۔
محل کے اندر 30 سے زائد کمرے
عمدہ ڈرائنگ روم ڈائننگ ہال بالکونیاں اور اندرونی آرائش کا اعلیٰ نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
محل کی تعمیر سے جڑی دلچسپ روایتون کے مطابق کہا جاتا ہے کہ نواب صادق نے یہ محل اپنی بیوی کے لیے تعمیر کروایا تها ۔
مگر جب بیگم نے بالکونی سے باہر جھانکا اور قریب ہی قبرستان دیکھا
تو اس نے وہاں رہنے سے انکار کر دیا۔
یوں یہ محل کبھی اپنی اصل مقصد کے لیے استعمال نہ ہو سکا
البتہ اسے تقریبات مہمانوں کی رہائش اور نوابوں کی شاہی محفلوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
تاریخی اعتبار سے نور محل صرف ایک شاندار عمارت نہیں
بلکہ ریاست بہاولپور کی سیاسی اور ثقافتی عظمت کی نشانی بھی ہے۔
نوابوں کے دور میں بہاولپور ایک خوشحال منظم اور خودمختار ریاست تھی،
جس نے 1947ء میں پاکستان سے الحاق کیا۔
نور محل اسی عظمت کا ایک روشن نشان ہے
جو آج بھی بہاولپور کی پہچان بنا ہوا ہے۔
نور محل اس وقت پاکستان آرمی کی نگرانی میں ہے
کیونکہ یہ کینٹ ایریا میں واقع ہے۔
عام لوگوں کے لیے مخصوص دنوں اور اوقات میں محل میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اسے ایک عجائب گھر میوزیم کی صورت بھی دی گئی ہے
جہاں نوابوں کا فرنیچر ہتھیار تصویریں اور دیگر ثقافتی اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔
جدید روشنیوں سے مزین
شام کے وقت محل کا منظر انتہائی دلکش ہوتا ہے
جو دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتا ہے۔
نور محل صرف اینٹ اور گارے کی عمارت نہیں بلکہ یہ ایک مکمل تاریخ ہے
جو ماضي کي تعمیراتی فکر کی نمائندگی کرتی ہے۔
بہاولپور کا یہ نایاب اثاثہ ہماری نوجوان نسل کے لیے
ماضی سے جڑنے کا ایک خوبصورت ذریعہ ہے۔
اس کا تحفظ اور دیکھ بھال صرف ایک سرکاری ذمہ داری نہیں
بلکہ ہماری قومی، تہذیبی اور تاریخی پہچان کا تقاضا بھی ہے۔
(تحریر, عبدالرحمان اوڻھو)
آنے والے آتے ہیں صرف جانے کے لیے
یادیں چھوڑ جاتے ہیں
آئندہ نسلوں کي عبرت کے لیے ۔
پاکستان کی سرزمین تاریخ تہذیب اور فنِ تعمیر سے بھرپور ہے۔
انہی تاریخی ورثوں میں سے ایک بے مثال عمارت ہے
نور محل جو بہاولپور کے دل میں واقع ہے۔
یہ محل نہ صرف ماضی کے نوابوں کے دور کی علامت ہے
بلکہ فن ثقافت اور تاریخ کی زندہ مثال بھی ہے۔
نور محل کی بنیاد 1872ء میں
نواب صادق محمد خان چہارم نے رکھی اور یہ 1875ء میں مکمل ہوا۔
اس کی تعمیر میں اطالوی Italian اور اسلامی فنِ تعمیر کو یکجا کیا گیا
جس کی وجہ سے اس عمارت میں ایک منفرد جمالیاتی عظمت جھلکتی ہے۔
محل کے اندر 30 سے زائد کمرے
عمدہ ڈرائنگ روم ڈائننگ ہال بالکونیاں اور اندرونی آرائش کا اعلیٰ نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
محل کی تعمیر سے جڑی دلچسپ روایتون کے مطابق کہا جاتا ہے کہ نواب صادق نے یہ محل اپنی بیوی کے لیے تعمیر کروایا تها ۔
مگر جب بیگم نے بالکونی سے باہر جھانکا اور قریب ہی قبرستان دیکھا
تو اس نے وہاں رہنے سے انکار کر دیا۔
یوں یہ محل کبھی اپنی اصل مقصد کے لیے استعمال نہ ہو سکا
البتہ اسے تقریبات مہمانوں کی رہائش اور نوابوں کی شاہی محفلوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
تاریخی اعتبار سے نور محل صرف ایک شاندار عمارت نہیں
بلکہ ریاست بہاولپور کی سیاسی اور ثقافتی عظمت کی نشانی بھی ہے۔
نوابوں کے دور میں بہاولپور ایک خوشحال منظم اور خودمختار ریاست تھی،
جس نے 1947ء میں پاکستان سے الحاق کیا۔
نور محل اسی عظمت کا ایک روشن نشان ہے
جو آج بھی بہاولپور کی پہچان بنا ہوا ہے۔
نور محل اس وقت پاکستان آرمی کی نگرانی میں ہے
کیونکہ یہ کینٹ ایریا میں واقع ہے۔
عام لوگوں کے لیے مخصوص دنوں اور اوقات میں محل میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اسے ایک عجائب گھر میوزیم کی صورت بھی دی گئی ہے
جہاں نوابوں کا فرنیچر ہتھیار تصویریں اور دیگر ثقافتی اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔
جدید روشنیوں سے مزین
شام کے وقت محل کا منظر انتہائی دلکش ہوتا ہے
جو دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتا ہے۔
نور محل صرف اینٹ اور گارے کی عمارت نہیں بلکہ یہ ایک مکمل تاریخ ہے
جو ماضي کي تعمیراتی فکر کی نمائندگی کرتی ہے۔
بہاولپور کا یہ نایاب اثاثہ ہماری نوجوان نسل کے لیے
ماضی سے جڑنے کا ایک خوبصورت ذریعہ ہے۔
اس کا تحفظ اور دیکھ بھال صرف ایک سرکاری ذمہ داری نہیں
بلکہ ہماری قومی، تہذیبی اور تاریخی پہچان کا تقاضا بھی ہے۔